Friday, May 3, 2013

پیروڈی

بتاتی ہے مجھے رخسانہ کیسی بے رخی سے
‘‘کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے’’

‘‘کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے’’
کہ میں نے شادیاں دونوں ہی کیں اپنی خوشی سے

‘‘ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت’’
مگر پہلی سے اب کم، اور زیادہ دوسری سے

‘‘وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا’’
یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بزدلی سے

سکونِ خانۂ دل کے لئے کچھ دیر چپ کر
اٹھا مت فائدہ اتنا مری لب بستگی سے
           
‘‘تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟’’
کبھی کیا سر نہیں نکلے گا  میرا اوکھلی سے؟

‘‘ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا’’
ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی نوکری سے

کبھی خوش ذائقہ، تازہ ڈنر بھی سامنے رکھ
‘‘کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دلکشی سے؟’’

‘‘وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے’’
نکل جاؤں یہاں سے میں کہیں پتلی گلی سے

ابھی اے دوستؔ شادی کو ہوئے ہیں سال کتنے؟
‘‘تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے؟

پیروڈی : ہوٹل تاج محل

                                                            ہوٹل تاج محل

تاج تیرے لئے اک محورِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس لکژری ہوٹل سے محبت ہی سہی

‘‘میری محبوب ! کہیں اور ملا کر مجھ سے’’

مہنگے ہوٹل میں غریبوں کا گزر کیا معنی
جس کے درباں بھی ہوں ملبوسِ شہنشاہی میں
اس میں لٹھے کے پجاموں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پسِ پردۂ فائیو اسٹار
لوٹنے والی دکانوں کو تو دیکھا ہوتا
مہنگے ہوٹل کے کبابوں سے بہلنے والی
عشق کے اور ٹھکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت جوڑوں نے باغوں کی زیارت کی ہے
‘‘کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے’’
قیس و لیلیٰ بھی کبھی جانبِ ہوٹل نہ گئے
‘‘کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے’’

یہ عمارات و منازل، یہ پلازہ، یہ بہار
فارغ البال امیروں کے لئے جائے سکوں
اس کی رقاصہ کے رنگین تبسم پہ نہ جا
اس میں شامل ہے مرے جیسے ہی عشاق کا خوں

‘‘میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل’’
ان کے پیاروں نے تو دیکھے بھی نہیں سیخ کباب
آج تک ان کوکھلایا نہ کسی نے اک مِیل

یہ مِنی بار، یہ لابی کا نظارہ، یہ مہک
روسٹیڈ، روغنی، دم پخت غذاؤں کے طباق
شوخ تجّار نے دولت کا سہارا لے کر
‘‘ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق’’

‘‘میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے’’