Friday, May 3, 2013

پیروڈی

بتاتی ہے مجھے رخسانہ کیسی بے رخی سے
‘‘کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے’’

‘‘کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے’’
کہ میں نے شادیاں دونوں ہی کیں اپنی خوشی سے

‘‘ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت’’
مگر پہلی سے اب کم، اور زیادہ دوسری سے

‘‘وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا’’
یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بزدلی سے

سکونِ خانۂ دل کے لئے کچھ دیر چپ کر
اٹھا مت فائدہ اتنا مری لب بستگی سے
           
‘‘تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟’’
کبھی کیا سر نہیں نکلے گا  میرا اوکھلی سے؟

‘‘ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا’’
ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی نوکری سے

کبھی خوش ذائقہ، تازہ ڈنر بھی سامنے رکھ
‘‘کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دلکشی سے؟’’

‘‘وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے’’
نکل جاؤں یہاں سے میں کہیں پتلی گلی سے

ابھی اے دوستؔ شادی کو ہوئے ہیں سال کتنے؟
‘‘تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے؟

No comments: